Okaz

روہنگیا کے مسلامن کون ہیں؟

- عکاظ اردو جدہ

1948 میں برما کو آزادی ملنے کے بعد وہاں کی حکومت نے اُن کی نقل مکانی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یوں میامنار کے زیادہ تر لوگ روہنگیا کو بنگالی سمجھنے لگے۔ روہنگیا ایک نسلی مسلامن برادری ہے جو صدیوں سے میامنار میں اکرثیتی بدھ برادری کے ساتھ رہتی چلی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت مینامر میں تقریباً 11 الکھ روہنگیا افراد بستے ہیں۔

اُن کی زبان ’روہنگیا‘ یا ’روئنگا‘ کہالتی ہے جو میامنار بھر میں عام طور پر بولی جانے والی زبانوں سے یکرس مختلف ہے۔ روہنگیا برادری کو ملک میں آباد دیگر 135 نسلی گروپوں جیسی رسکاری حیثیت حاصل نہیں ہے اور اُنہیں 1982 سے میامنار میں شہریت کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ یوں ایک طرح سے یہ برادری بے وطنی کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔

یہ برادری میامنار کی ساحلی پٹی ریخائن میں رہتی ہے اور رسکاری اجازت کے بغیر یہ لوگ اس عالقے سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ روہنگیا میامنار کی غریب ترین برادریوں میں سے ایک ہے اور وہ زیادہ تر گھیٹو انداز کے کیمپوں میں گزارہ کر رہے ہیں جہاں اُنہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میرس نہیں ہیں۔

اُن کے خالف حالیہ طور پر جاری تشدد اور ظلم و ستم کے باعث اس برادری کے الکھوں افراد گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران خشکی یا پانی کے راستے قریبی ہمسایہ ماملک کی جانب فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

روہنگیا لوگ 12 ویں صدی سے مینامر میں رہتے آئے ہیں۔ 1824 سے 1948 تک جاری رہنے والے برطانوی نوآبادیاتی دور میں بھارت اور موجودہ بنگلہ دیش سے ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں نے برما کی جانب نقل مکانی اختیار کی جسے اب میامنار کہا جاتا ہے۔

اُس وقت چونکہ برطانوی تسلط میں برما ہندوستان کا ایک صوبہ تھا اسلئے اس نقل مکانی کو ملک کا اندرونی اقدام ہی قرار دیا گیا۔ تاہم مزدوروں کی اس آمد کو مقامی اکرثیتی آبادی نے کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔

1948 میں برما کو آزادی ملنے کے بعد وہاں کی حکومت نے اُن کی نقل مکانی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یوں میامنار کے زیادہ تر لوگ روہنگیا کو بنگالی سمجھنے لگے۔

اسی وقت حکومت نے یونین سیٹزن ایکٹ کے نام سے ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت اُن نسلی برادریوں کا تعین کر دیا گیا جنہیں ملکی شہریت کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق ییل یونیورسٹی کے بین االقوامی کلینک کی طرف سے 2015 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان میں روہنگیا برادری کو شامل نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے روہنگیا کے بیشرت افراد اب تک شہریت سے محروم ہیں۔ تاہم اس ایکٹ کے تحت روہنگیا کے ایسے افراد کو شناختی کارڈ جاری ہونے کا حق دیا گیا جو کم از کم دو نسلوں سے مینامر میں آباد ہیں۔ یوں رشوع میں اس برادری کے بہت سے افراد کو شناختی کارڈ اور شہریت بھی دے دی گئی جس کی باعث روہنگیا کے متعدد افراد منتخب ہو کر ملکی پارلیامن میں بھی پہنچے۔

1962 میں مینامر میں فوجی بغاوت کے بعد روہنگیا برادری کی صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی۔ نئی فوجی حکومت نے متام افراد کو قومی رجسٹریشن کارڈ حاصل کرنے کا پابند کر دیا۔ تاہم روہنگیا افراد کو غیر ملکیوں کی حیثیت سے رجسٹریشن کارڈ جاری کئے گئے جن کے باعث اُن کیلئے مالزمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کا حق محدود ہو کر رہ گیا۔ پھر 1982 میں شہریت کے ایک نئے قانون کی منظوری دی گئی جس کے باعث روہنگیا مؤثر طور پر بے وطنی کا شکار ہو گئے۔

اس قانون میں شہریت کو تین درجوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بنیادی شہریت کے حصول کیلئے الزمی قرار دیا گیا کہ متعلقہ شخص کا خاندان 1948 سے قبل مینامر میں آباد تھا اور وہ قومی زبانوں میں سے کوئی ایک روانی سے بول سکتا ہو۔ روہنگیا برادری کے بیشرت افراد ان رشائط پر پورا نہیں اترتے۔

اس کے نتیجے میں اس برادری کے افراد کیلئے قانون تک رسائی، حصول تعلیم، مالزمت، سفر، شادی کرنے، اپنے مذہب کے مطابق زندگی برس کرنے اور صحت عامہ کی سہولتیں حاصل کرنے کے حقوق انتہائی طور پر محدود ہو گئے۔ اُنہیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔

1970 کی دہائی سے صوبے ریخائن میں روہنگیا برادری کے خالف مسلسل تادیبی کارروائیاں کی گئیں جن کے باعث الکھوں روہنگیا لوگ بھاگ کر بنگلہ دیش ، مالئشیا، تھائی لینڈ اور دیگر جنوب مرشقی ریاستوں کی طرف چلے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُن کے خالف مینامر کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے ان کارروائیوں میں عصمت دری، تشدد، لوٹ مار اور قتل کے بے شامر واقعات ہوئے۔

 ??  ??

Newspapers in Arabic

Newspapers from Saudi Arabia